حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/محرم لحرام میں ہونے والی عشرہ مجالس کا سلسلہ جاری ہے۔اس حوالے سے آج مسجد نور محل حضرت گنج میں پانچویں مجلس کو مولانا ارشد حسین موسوی نے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ انسانی معاشرے میں انسانی اقدار کی بحالی اور اس کا قیام ضروری ہے۔جس معاشرے میں انسانی قدریں پامال ہو کر ختم ہو جاتی ہیں وہ معاشرہ انسانوں کے رہنے کے لئے موزوں نہیں رہ جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی بھی یہی چاہتا ہے کہ انسانی معاشرے میں انسانی قدریں محفوظ رہیں ۔اسی لئے وہ قرآن میں جگہ جگہ پیغمبروں کو یاد کرنے کی تاکیدکرتا ہے اور یہی نہیں کہ صرف ان پیغمبروں کو یاد کرنے کی تاکید کی بلکہ اس کی وجہ بھی بیان کی ہے کہ ان کو یاد کرنے سے ہمارے اندر بھی ان صفتوں اور قدروں کی روشنی پیدا ہو تاکہ انسانیت اور انسانی قدریں مھفوظ رہیں۔
مولانا نے کہا کہ ایسا نہیں کہ صرف مردوں کو یاد کرنے کا حکم ہوا بلکہ اللہ نے یاد کرو مریم بھی کہا ہے۔ تاکہ مریم کی صفات پاکدامنی کی روشنی پیدا ہو۔اس موقع پر مولانا نے بعض معترضین کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ابراہیم کا ذکر کرنے کو کہا گیا ہے تو علی کا ذکر کیوں نہیں۔اسماعیل کا ذکر ہے تو حسن و حسین کا ذکر کیوں نہیں اور مریم کا ذکر کرنے کو کہا ہے تو جناب سیدہ فاطمہ کا کیوں نہیں۔انھوں اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ خدا کو نام سے نہیں کام سے غرض ہے یعنی نام مقصود نہیں ہیں بلکہ صفات مقصود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ائمہ کرام علم نبی،عمل نبی،سیرت نبی اخلاق نبی اور کردار نبی کے وارث ہیں، بی بی مریم کے ذکر سے جناب سیدہ کی عظمت کم نہیں ہوتی، حضرت فاطمہ تو فخر مریم ہیں۔ان کی عظمت کو صرف اللہ اور اس کا رسول ہی سمجھ سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جناب سیدہ کے آنے پر نبی کھڑے ہو جاتے تھے اور دروازے پر ان کا استقبال کرتے تھے اور انھیں اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔نبی کی مسند پر بیٹھنے کا شرف ہر کس و ناکس کو حاصل نہیں تھا۔یہ صرف مولی علی اور جناب سید ہ کو حاصل ہے۔
مولانا نے کہا کہ جناب سیدہ کی یہ عظمت کسی اور کو حاصل نہیں ہے ۔جناب سیدہ نے اپنی بیٹی زینب کو بھی اسی طرح تیار کیا کہ ثانی زہرا کہلائیں۔جناب زینب کو بھی یہ شرف حاصل ہے کہ ان کی تربیت پانچ اماموں کی سرپرستی میں ہوئی ۔جناب محمد ۔جناب علی،جناب سیدہ فاطمہ ،جناب حسن و حسین۔ حضرت زینب کی ان پانچوں کی صفتیں بیک وقت موجود تھیں۔یہ وہی زینب ہیں جنھوں نے اپنے بیٹوں عون ومحمد کا ماتم نہیں کیا۔جب انھوں نے کربلا میں اپنے بیٹوں کو میدان کی طرف رخصت کیا توخیمہ میں چلی گئیں اور پھر جب عون و محمد کے لاشے لائے گئے تو بھی آپ خیمہ سے باہرنہیںنکلیں، لیکن علی اکبر کا لاشہ لایا گیا تو آپ تڑپ کر باہر نکل آئیں۔
مولانا نے کہا کہ یہ وہی زینب ہیں جنھوں نے اس وقت کی سپر پاور یزید کو اس کے دربار میں ایسا للکارا کہ اس کی بولتی بند کر دی۔اور لکھا گیا کہ زینب کا خطبہ سن کر لوگوں کو لگا کہ مولی علی شیر خدا بول رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ جناب زینب کا خطبہ ایک معجزہ ہے۔